new add

Monday 19 June 2017

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا



آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا


اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

Sunday 18 June 2017

کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر



کتنی زلفیں کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر

کتنا ماتم ہوا کتنے آنسو بہے چاند کو کیا خبر


مدتوں اس کی خواہش سے چلتے رہے ہاتھ آتا نہیں
چاہ میں اس کی پیروں میں ہیں آبلے چاند کو کیا خبر

وہ جو نکلا نہیں تو بھٹکتے رہے ہیں مسافر کئی
اور لٹتے رہے ہیں کئی قافلے چاند کو کیا خبر

اس کو دعویٰ بہت میٹھے پن کا وصیؔ چاندنی سے کہو
اس کی کرنوں سے کتنے ہی گھر جل گئے چاند کو کیا خبر

ﺍﮐﮭﯿﮟ ﺗﻮﮞ ﮨﻨﺞ ﺟﺎﺭﯼ ﮬﮯﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ



ﺍﮐﮭﯿﮟ ﺗﻮﮞ ﮨﻨﺞ ﺟﺎﺭﯼ ﮬﮯﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ

ﮐﻮﺋﯽ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﮩﻮﮞ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮬﮯﺍﺟﺎﮞ
ﺗﺌﯿﮟ
ﻣﺤﻞ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﯿﺎﺭ ﺩﮮ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﺍﺳﺮﺩﻥ
ﺧﯿﺎﻟﯿﮟ ﺩﯼ ﺍﺳﺎﺭﯼ ﮬﮯ ﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ
ﺍﯾﻨﻮﯾﮟ ﮨﮏ ﺭﺍﺕ ﮨﮏ ﺟﺎﮦ ﺗﮯ ﻣﻠﯿﺎ ﮨﺎ
ﺍﻭﮨﺎ ﮨﮏ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮬﮯﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ
ﭘﭽﮭﮯ ﺗﺎﮞ ﺑﺲ ﺍﻭﮐﻮﮞ ﺍﺗﻨﺎ ﮈﺳﺎﻧﻮﯾﮟ
ﺍﻭﮨﺎﺑﺲ ﺑﮯﻗﺮﺍﺭﯼ ﮬﮯﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ
ﺍﺳﺎﮞ ﺳﺮﺳﭧ ﮐﮯ ﺗﮩﻮﮞ ﭨﺮﺩﮮ ﻭﺩﮮ ﮨﯿﮟ
ﺳﺎﮈﮮ ﺳﺮ ﺗﮯ ﺗﻐﺎﺭﯼ ﮬﮯ ﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ
ﺍﻭﮞ ﺁﮐﮭﯿﺎ ﮨﺎ ﮐﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﺁ ﻧﮑﻠﺴﺎﮞ
ﻗﺒﺮﺳﺎﮈﯼ ﺗﻮﮞ ﺑﺎﺭﯼ ﮬﮯ ﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ
ﻭﻓﺎ ﺩﮮ ﺑﺎﻍ ﻭﭺ ﻣﯿﮟ ﻭﯼ ﮔﯿﺎ ﮬﻢ
ﻣﯿﮉﮮ ﮔﻞ ﻭﭺ ﻭﯼ ﮔﺎﺭﯼ ﮬﮯ ﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ
ﺟﯿﺮﮬﮯ ﻧﺎﺷﺎﺩ ﮐﻮﮞ ﺗﻮﮞ ﺑﮭﻞ ﮔﯿﺎ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﮨﻮ ﺗﯿﮉﺍ ﭘﺠﺎﺭﯼ ﮬﮯ ﺍﺟﺎﮞ ﺗﺌﯿﮟ ﺁﭘﻨﮍﯼ
ﮐﺘﺎﺏ "ﭘﺮﺍﯾﺎﭼﻨﺪﺭ " ﻭﭼﻮﮞ
............ ﺟﻤﺶﯾﺪﻧﺎﺷﺎﺩ

Saturday 17 June 2017

وہ تمام غم

وہ تمام غم

جو گذرگئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ تمام دن وہ تمام غم
جو گذرگئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ لُٹے سہاگ وہ عصمتیں
جو فسانہ ہیں وہ حقیقتیں
وہ تمام گھر اُجڑ گئے
وہ عزیز سب جو بچھڑ گئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ عجیب لوگ وہ قافلے
جو نہ رُک سکے نہ بھٹک سکے
جو چمن سجا کے چلے گئے
جو وطن بنا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ تمام عہد جو فرض ہیں
جو امانتیں ہیں جو قرض ہیں
جو پڑھے تھے ضربِ قلیم میں
جو ہوئے تھے شہرِ عظیم میں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں

(احمد ندیم قاسمی)

کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش



کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش 

اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش 


کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام 
مسجد و مکتب و مے خانہ ہیں مدت سے خموش 

میں نے پایا ہے اسے اشک سحرگاہی میں 
جس در ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش 

نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں 
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش 

صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے 
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش 

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا



ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

کس سے پوچھوں ترے آقا کا پتہ اے رہوار
یہ علم وہ ہے نہ اب تک کسی شانے سے اٹھا

حلقۂ خواب کو ہی گرد گلو کس ڈالا
دست قاتل کا بھی احساں نہ دوانے سے اٹھا

پھر کوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا
کیسا مہتاب مرے آئنہ خانے سے اٹھا

کیا لکھا تھا سر محضر جسے پہچانتے ہی
پاس بیٹھا ہوا ہر دوست بہانے سے اٹھا

Friday 16 June 2017

فنکار ہے تو ہاتھہ پہ سورج سجا کے لا



فنکار ہے تو ہاتھہ پہ سورج سجا کے لا 


بجھتا ہوا دیا......... نہ مقابل ہوا کے لا 


دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا 
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا 

اب اختتام کو ہے سخی حرف التماس 
کچھہ ہے تو اب وہ سامنے دست دعا کے لا 

پیماں وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر 
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا 

آرائش جراحت یاراں کی بزم میں 
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا 

تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل 
تھوڑی سی اس کے جسم کی چرا کے لا 

گر سوچنا ہیں اہل مشیت کے حوصلے 
میداں سے گھر میں ایک تو میت اٹھا کے لا 

محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر 
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا لا

ﻣﺨﻠﺺ ﻣﺴﯿﺤﺎ ﺑﻨﮍ ﮐﮯ ﮨﻨﮍ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺩﻭﺍ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ


ﻣﺨﻠﺺ ﻣﺴﯿﺤﺎ ﺑﻨﮍ ﮐﮯ ﮨﻨﮍﮐﺮ ﻧﮧ ﺩﻭﺍ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ


ﺑﭽﺪﮮ ﮨﺎﺳﮯ ﺳﻮﭼﯿﺎ ﻧﻮﯼ
ﮨﻨﮍ ﻧﮧ ﺑﭽﺎ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ

ﮐﻞ ﺷﮩﺮ ﺩﮮ ﻭﭺ ﺷﻮﺭ ﮬﺎ
ﮨﮏ ﺩﺭ ﺍﺗﮯ ﮐﭩﮫ ﮐﻮﮌﮪ ﮬﺎ
ﮐﮩﺮﺍﻡ ﮬﺎ ﮐﺠﮫ ﺑﺨﺶ ﮈﮮ
ﮐﺠﮫ ﺗﺮﺱ ﮐﮭﺎ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ

ﺳﺎﮦ ﺳﺎﮦ ﺩﯼ ﺗﮭﺌﯽ ﭘﭽﮭﻮﮒ
ﮬﮧ
ﺭﻭﺡ ﺍﭺ ﺭﻭﺍﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﮒ
ﮬﮧ
ﮨﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﺗﺎﺋﯿﮟ ﺍﺩﮪ ﺭﺍﺕ
ﺗﺎﺋﯿﮟ
ﻣﮑﺪﯼ ﻣﮑﺎ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ

ﮨﺠﺮﯼ ﺳﺒﺐ ﮬﺎ ﻣﻮﺕ ﺩﺍ
ﻭﺻﻠﯽ ﺳﺒﺐ ﮬﮧ ﻣﻮﺕ ﺩﺍ
ﻣﻠﺪﺍ ﺟﮯ ﻧﮧ ﻣﺮﺩﮮ ﮨﺎﺳﮯ
ﻣﻞ ﭘﮱ ﻭﻻ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ

ﻣﺮ ﻧﮧ ﻭﻧﺠﻮﮞ ﺳﮑﺪﯾﮟ
ﮨﻮﺋﯿﮟ
ﺳﺎﻗﯽ ﺗﯿﮑﻮﮞ ﻣﮱ ﺩﯼ ﻗﺴﻢ
ﺟﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺻﻮﻝ ﮨﻦ ﺗﺮﮎ
ﮐﺮ
ﮨﮏ ﮔﮭﭧ ﭘﻼ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ

ﺑﭻ ﮐﻮﻥ ﺁﮰ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻨﻮﮞ
ﺑﮯ ﺷﻮﻝ ﺑﻠﺪﯼ ﺑﮭﺎﮦ ﮐﻨﻮﮞ
ﺳﺎﮐﻮﮞ ﺳﻤﺠﮫ ﺗﺎﮞ ﺁﻧﺪﯼ
ﻧﺌﯿﮟ
ﮬﮧ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮﮞ ﺷﺎﯾﺪ ﮈﺭ ﮔﮱ
ﺍﺷﺘﺮ ﮐﺘﮭﺎﺋﯿﮟ ﻣﺮ ﮔﮱ
ﻣﺪﺕ ﮐﻨﻮﮞ ﻣﻠﯿﺎ ﻭﯼ ﻧﺌﯿﮟ
ﺁﮬﺪﺍ ﻭﯼ ﮬﺎ ﺑﭽﺪﮮ ﻧﺴﮯ...!!!!!!!
LikeShow More Reactions
Comment

Thursday 15 June 2017

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا 

غنیمت کہ میں اپنے باہر چھپا


مجھے یاں کسی پہ بھروسا نہیں 
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چھپا

پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں 
سو میں اپنے ہونٹوں پہ اکثر چھپا

مری سن نہ رکھ اپنے پہلو میں دل 
اسے تو کسی اور کے گھر چھپا

یہاں تیرے اندر نہیں میری خیر 
مری جاں مجھے میرے اندر چھپا

خیالوں کی آمد میں یہ خارزار 
ہے تیروں کی یلغار تو سر چھپا 

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا وہ اس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا 


شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر 
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا 

ہوں گے مرے وجود کے سائے الگ الگ 
ورنہ برون در بھی پس در بھی میں ہی تھا 

پوچھ اس سے جو روانہ ہوئے کاٹ کر مجھے 
راہ وفا میں شاخ صنوبر بھی میں ہی تھا 

آسودہ جس قدر وہ ہوا مجھ کو اوڑھ کر 
کل رات اس کے جسم کی چادر بھی میں ہی تھا 

مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہم سری 
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا 

آئینہ دیکھنے پہ جو نادم ہوا قتیلؔ 
ملک ضمیر کا وہ سکندر بھی میں ہی تھا 


سائیں عزیز شاہد صاحب ایک بار ضرور سنیں


سائیں عزیز شاہد صاحب ایک بار ضرور سنیں

Monday 12 June 2017

تو سکھ دی سیجھ تے ندر ھاویں





تو سکھ دی سیجھ تے ندر ھاویں

تیکوں ندر اچ کوئ پکریندا ھا..........
ادھ رات کوں تیڈے شھر دے وچ
ھک شخص آوازاں ڈینداھا.........
کوئ مخلص بنڑ کے نئیں آیا 
بھر باکاں در کھڑکیندا ھا........
سیجھ ابھرے شاکر ماتم ھا
ھر شخص ارمان کریندا ھا.....

تجھے اب کس لئے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے


تجھے اب کس لئے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے

جو پتے زرد ہو جائیں وہ شاخوں پر نہیں رہتے


تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے

جھکا دے گا تیری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے

یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتے
 

Sunday 11 June 2017

ودھو کی امید اور میری نا امیدی

ودھو کی امید اور میری نا امیدی


قریب دو برس پرانے وقتوں کا ذکر ہے کہ بجلی کا بل بجلی کی طرح سر پر گرا اور ہم حیران کہ یا الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے؟؟؟ تحقیق پر پتہ چلا کہ میٹر ریڈر کی "ریڈری" کا کمال ہے- موصوف میٹر ریڈر کم اور ایس ڈی او صاحب کے ریڈر زیادہ تھے-
اگر آپ بجلی چوری نہیں کرتے تو یہ واپڈا کا فائدہ ہو سکتا ہے مگر واپڈا والوں کا نقصان ہے- ظالم جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے میں لگے ہیں اور جس تھالی میں کھا تے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں- یہی وجہ ہے کہ اکثر سودمند اور منافع بخش سرکاری اداروں کے سر پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے- سرمایہ دار بھیڑیے یہی چاہتے ہیں کہ محکمہ کمزور ہو اور وہ اسے زندہ نگل سکیں-
 ماجرا یہ ہے کہ ریڈنگ اصل ریڈنگ سے دانستہ کم کی جاتی ہے اور پھر جب صارف جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اس کے سر پر بم پھوڑ دیا جاتا ہے-
دھاڑ دھاڑ کی اور انصاف کی دہائی دی تو  واپڈا کے ایک صاحبِ حال و قال اور "پہنچے ہوئے" مین----لائن کرنے کیلئے موقع پر آ پہنچے- آپ واپڈا میں اسسٹنٹ لائن مین کے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور خدا کی قسم موصوف نے واپڈا سب ڈویژن کرمداد قریشی میں گورے اور کالے، عربی اور عجمی، امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر اہلِ محلہ و علاقہ کی "خدمت" کی ہے- خدا جانے کون سی قمیص میں وہ جیب لگی ہو گی جس میں اس مردِ خدا کا حصہ بخرا نہ ہو گا-
فرمایا میٹر ریڈر کو کچھ دے دلا کر میٹر ریورس کرانا پڑے گا- میں عرض گذار ہوا کہ اے پیرِ فرتوت کالے کرتوت یہ تجویز مجھے نہ دے کہ ابا حضور ماسٹر ہیں اور جدید دور کے تقاضے نہیں سمجھتے- ایسے آدمی کے ساتھ کیا مغز ماری جس نے اتوار کے روز بھی سکول سے ناغہ نہ کیا ہو اور پھول پھلواریاں اور کیاریاں بھی ذاتی جیب اور خونِ دل سے سینچی ہوں-

اے تو کہ تیری پہنچ "اوپر" تک ہے کوئی درمیانی راستہ نکال!!!!!!

مگر درمیانی راستہ بندر بانٹ کا تھا اور یوں میٹر ابا حضور کی پرانی سوچ کی بھینٹ چڑھ گیا- گھر میں موجود چار تنخواہوں نے بل دیکھا اور یہ بھاری پتھر اٹھانے سے معذرت کر لی-
اے چار تنخواہو! تم سے تو وہ چار کریمیں اچھی جو ایک نظر چہرے پر ڈال دیں تو بندہ "سرخرو" ہو جائے-
 آخر واپڈا والے میٹر اتار کر لے گئے اور یہیں سے ہماری آج کی کہانی شروع ہوتی ہے-

میٹر آر سی او ہوا اور دوسرا میٹر آ گیا جو پتہ نہیں کس "قصور" میں کہاں سے اتارا گیا تھا- اب اس میٹر کے پچھلے سارے قصور ہمارے کھاتے میں پڑنا شروع ہو گئے- میٹر بجلی پر کم اور ہماری قسموں اور اہلِ محلہ کی گواہی پر زیادہ چلتا رہا- جس تس نے بھی میٹر دیکھا اگلے ماہ کا بل غصے میں بھیجا- اماں اور ابا ہر مہینے مجھے برا بھلا کہتے-
ایک سندھی ایس ڈی او صاحب آئے اور میٹر کے سر ہو گئے- ہر چند کہ واپڈا اہلکاروں اور اہلِ محلہ نے ہماری پاک دامنی کے حلف دئیے مگر موصوف نہ مانے اور قریب سے میٹر دیکھنے جا پہنچے- ادھر میٹر کو ہاتھ لگا اور ادھر میٹر کے عقب میں مورچہ زن بھڑوں کا لشکر حملہ آور ہوا-
خدا گواہ کہ فوجِ اشقیاء منہ چھپاتی پھری-
یہی وہ مقدس لمحات تھے جب ہمیں رزقِ حلال کی برکت اور اپنی اولیائی پر یقین ہو گیا---مگر آگے چل کر میپکو سب ڈویژن کی کمان ایک ایسے سورما کے ہاتھ میں آئی کہ جس کی خوش کلامی سے انسانیت کا اعتبار بھی جاتا رہا-
میٹر کی اندھا دھند ریڈنگ ہوتی رہی اور ہم خزانہ سرکار میں بل اور تاوان جمع کرواتے رہے- بھاری بلوں سے عاجز آ کر بھاگ دوڑ کی تو پتہ چلا کہ الٹی گنگا بہہ رہی ہے- نومبر 2016 تک ریڈنگ نیگیٹو ہو گئی اور واپڈا ہمارا مقروض ہو گیاِ - مگر محکمے کے وفا پیشہ سپوتوں نے میٹر پر ڈیفیکٹو کوڈ لگا دیا- احباب نے مشورہ دیا کہ تبدیل کروا لیں اور جان چھڑوائیں-
تف ہے اے سادہ دلی تجھ پر کہ تو میری انگلی تھام کر اس مردِ مردود نہ فاتحہ نہ درود کے آستانے پر لے گئی جس کی غارت گری کے چرچے آسمانوں پر ہو رہے تھے- بولا دو دن میں میٹر لگ جائے گا دو ہزار فیس ہے- چند دن پہلے میں نے اپنے ایک دوست پولیس افسر سے درخواست کر کے ظالم کی ضمانت قبل از گرفتاری کنفرم کروائی تھی اور مجھے امید تھی کہ میرے ساتھ راستی کا معاملہ کرے گا-
میں نے دو ہزار دئیے اور دو دن کا انتظار کرنے لگا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ-
تھانیداری کام آئی، ہمسائیگی اور نہ احسان کہ جس کا بدلہ احسان ہوتا ہے-
میں نے شوکت ملیر کے پاؤں جا پکڑے کہ ملیر اب تم ہی بچا سکتے ہو- شوکت ملیر واپڈا یونین کا عہدیدار ہے اور عام طور پر وہ بھی ڈبونے ہی کا کام کرتا ہے مگر مجھے اکثر بچا لیتا ہے-  میٹر پر ڈیفیکٹو کوڈ لگ چکا تھا اور ہم چھ ہزار تاوان بھی بھر چکے تھے-لینے کے دینے کیسے پڑتے ہیں، کوئی ہمارا بل دیکھے اور دیکھے-
شوکت نے میٹر تبدیل کروا دیا اور وعدہ کیا کہ ڈیٹیکشن بل بھی نہیں آئے گا-
میٹر تبدیل ہو گیا اور میں تکیہ کھینچ کر سکون کی نیند سونے ہی والا تھا کہ بجلی چلی گئی- ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھا کیا کہ ابھی واپس آئی کہ آئی مگر احباب یہ کرم داد قریشی ہے، محلہ کیا ہے سویا ہوا محل ہے- یہاں ملازمان و افسران سرکار کو کوئی روکنے ٹوکنے اور پوچھنے پاچھنے والا نہیں- سیاست کار تو ہر حلقہء انتخاب میں ایک جیسے بے ضمیر ہیں مگر ضمیرِ آدم تو زندہ و بیدار ہو!
واپڈا اہلکار ہو، تحصیلدار ہو کہ تھانیدار سب  مرغِ باد نما اور چڑھتے سورج کے پجاری ہیں- ابلیسی نظام نے دفتروں ،ایوانوں اور عدالتوں میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور عوام کے ساتھ اعداد و شمار کا مکروہ کھیل کھیلا جا رہا ہے- ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے تب کہیں کوئی اسحاق ڈار جیسا دیدہ ور پیدا ہوتا ہے، اوپر سے کروڑوں عوام پر آبِ حیات کی ایک بوند ٹپکاتا ہے اور درباری بادشاہ کے حضور بلندیء اقبال کے ترانے گانا اور مبارک سلامت کے ڈھول پیٹنا شروع ہو جاتے ہیں- خضر نے سکندر کو جان بوجھ کرچشمہء حیواں سے بھٹکا دیا کہ مر بھی نہیں سکو گے اور جی بھی نہیں سکو گے- یہی حال ہم الباکستانیوں کا ہے - افسوس کہ وطنِ عزیز خرکار کیمپ بن چکا ہے- حکمران سرکاری عمال کے ذریعہ غریبوں کے چولہے کی لکڑی اور دئیے کا تیل چوری کرتے، اپنی تجوریاں اور عالمی مالیاتی اداروں کے گودام بھرتے ہیں-

جب چھوٹی سوئی نے ساتواں چکر کھایا اور بجلی نہیں آئی تو  میں نے واپڈا کمپلینٹ آفس ملتان کال کر کے رحم کی اپیل کی- انہوں نے میرا ریفرنس نمبر نوٹ کر کے شکایت درج کر لی- یاد رہے کہ جملہ کمپلینٹ سیلز پر شکایت درج کی جاتی ہے اس کا ازالہ نہیں کیا جاتا- امید ہے اس مقصد کیلئے کوئی اور سیل بنایا جائے گا-
مزید لوکل کمپلینٹ سیل اور ایس ڈی او سے رابطہ کرنے کا نیک مشورہ بھی دیا اور نمبرز بھی دئیے-
میں نے کمپلینٹ آفس رابطہ کیا تو معلوم ہوا کوئی تار ٹوٹ گئی ہے جلد ہی بجلی بحال کر دی جائیگی- اندر کی بات پوچھی تو بتایا گیا کہ وہی لائن لاسز کور کئے جا رہے ہیں ایس ڈی او صاحب کے حکم سے،،،،،،بند ہے- میں نے ایس ڈی او کا آفیشل نمبر ملایا اور بسم اللہ کر کے شروع ہو گیا کہ جناب سات گھنٹے ہو گئے ہیں بجلی گئے ہوئے، بجا کہ محکمے کی مجبوریاں ہوں گی مگر،،،،،،،،،،،،،،،آگے سے موصوف بولے کہ اگر مگر کچھ نہیں آپ نے رانگ نمبر ملایا ہوا ہے- مجھے سخت شرمندگی ہوئی-
دوبارہ دفتروں سے نمبر کنفرم کیا تو پتہ چلا کہ نمبر وہی تھا- دوبارہ کال ملائی تو موصوف نے ڈراپ کر دی- تب میں نے میسیج کیا کہ آپ اپنے آفیشل نمبر اور اپنی سرکاری شناخت سے منحرف ہو گئے ہیں ضرور آپ گندے آدمی ہیں-
موصوف شاید واقعی ویسے ہی آدمی تھے- بجلی تو نہیں آئی البتہ ایک کال ضرور آ گئی اور مخاطب نے ایس ڈی او واپڈا منیر گجر کی حیثیت سے اپنا تعارف کروا کے گالیاں دینا شروع کر دیں- میں حیران ہوا کہ رانگ نمبر درحقیقت کون سا تھا؟ میں نے معذرت کی اور کال کاٹ دی- میں تو پولیس والا ہوں گالیوں کا لین دین کرتا رہتا ہوں مگر یہ پڑھا لکھا انجینئر کیسی زبان بول رہا تھا؟ دوستوں سے معلوم ہوا کہ آپ ایل ایس ہیں اور مقامی ایم پی اے کی کاسہ لیسی کی بدولت ایس ڈی او کے عہدہ پر فائز ہیں- تب مجھ پر صاحب کی چوہدراہٹ، زبان دانی اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ کھلی-
کم تر اہلیت کے آدمی سے کیا توقع کہ وہ منصب کا لحاظ رکھے گا-
بڑے میاں صاحب، پھر چھوٹے میاں صاحب اور پھر چھوٹے میاں صاحب!  بجلی تو آپ دے نہیں سکتے، حرفِ تسلی بھی عوام کیلئے آپ کے پاس نہیں ہے؟
دل چاہا کہ شکایت لیکر وزیرِاعظم کے دفتر چلا جاؤں پھر خیال آیا کہ اگر آپ نے بھی کہا کہ بھئی میں انڈیا کا وزیرِ اعظم ہوں تو پھر کہاں جاؤں گا؟؟؟؟ وہاں بھی تو انحراف کی رسم رائج ہے- نہ یہ کار میری ہے اور نہ بنگلہ،،،نہ کارخانے اور ملیں میری ہیں اور نہ اکاؤنٹس اللہ اللہ خیر صلا- سب کچھ بچوں کا ہے- سب کچھ بچوں ہی کا تو ہوتا ہے-

خیر اس ماہ تبدیل شدہ میٹر پر 20000 روپے ڈیٹیکشن بل آیا ہوا ہے،،،،،افسرِ شاہانہ سے بد تمیزی کرنے کی کچھ سزا تو بہرحال بنتی ہے-
اللہ گواہ ہے کبھی ایک یونٹ بھی واپڈا کا چوری نہیں کیا اور گذشتہ چھ ماہ میں قریب تیس ہزار شبہ چوری میں ریکوری دے چکے ہیں- کوئی ادارہ، کوئی افسر کوئی مائی کا لعل، کوئی دھرتی کا سپوت ایسا بھی ہے جو اہلِ پانامہ پر شبہ چوری میں ریکوری ڈال دے؟؟؟؟؟
کہ بس ہم عوام ہی چور ہیں؟

ودھو سندیلہ واپڈا کی مدعیت میں درج ایک مقدمہ میں میرا ملزم رہا ہے، بھولا آدمی ہے دو میٹھے بول کیا بولے کہ اب اسے میپکو سب ڈویژن گجرات سے کوئی بھی شکایت ہو تو وہ مجھ سے امید باندھ لیتا ہے-

میں کدھر جاؤں؟؟؟؟؟

عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں

عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں

ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
نیند تو،،،، درد کے بستر پہ بھی آسکتی ہے
تیری آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں
آگ کو کھیل،،،، پتنگوں نے سمجھ رکھا ہے
سب کو انجام کا ڈر ہو یہ ضروری تو نہیں
شیخ جو "مسجد" میں کرتا ہے، خدا کو سجدے
اس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
سب کی ساقی پہ نظر ہو یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا



حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا


گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا

اتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی کا
اس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخن ور نہیں گرتا

حیراں ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا

اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سن لے
بے بازوئے حیدر در خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیلؔ اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا

اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں



اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں

میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں

وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں

ہے اُسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

تم بنو رنگ، تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
 

دل تھا کہ خوش خیال تجھے دیکھ کر ہوا



دل تھا کہ خوش خیال تجھے دیکھ کر ہوا

یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہوا

اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں
دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہوا

طول شب فراق تری خیر ہو کہ دل
آمادۂ وصال تجھے دیکھ کر ہوا

یہ ہم ہی جانتے ہیں جدائی کے موڑ پر
اس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہوا

آئی نہ تھی کبھی مرے لفظوں میں روشنی
اور مجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہوا

بچھڑے تو جیسے ذہن معطل سا ہو گیا
شہر سخن بحال تجھے دیکھ کر ہوا

پھر لوگ آ گئے مرا ماضی کریدنے
پھر مجھ سے اک سوال تجھے دیکھ کر ہوا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...