new add

Sunday 11 June 2017

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا



حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا


گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا

اتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی کا
اس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخن ور نہیں گرتا

حیراں ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا

اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سن لے
بے بازوئے حیدر در خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیلؔ اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...