new add

Thursday 15 June 2017

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا 

غنیمت کہ میں اپنے باہر چھپا


مجھے یاں کسی پہ بھروسا نہیں 
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چھپا

پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں 
سو میں اپنے ہونٹوں پہ اکثر چھپا

مری سن نہ رکھ اپنے پہلو میں دل 
اسے تو کسی اور کے گھر چھپا

یہاں تیرے اندر نہیں میری خیر 
مری جاں مجھے میرے اندر چھپا

خیالوں کی آمد میں یہ خارزار 
ہے تیروں کی یلغار تو سر چھپا 

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...