new add

Thursday 15 June 2017

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا

منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا وہ اس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا 


شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر 
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا 

ہوں گے مرے وجود کے سائے الگ الگ 
ورنہ برون در بھی پس در بھی میں ہی تھا 

پوچھ اس سے جو روانہ ہوئے کاٹ کر مجھے 
راہ وفا میں شاخ صنوبر بھی میں ہی تھا 

آسودہ جس قدر وہ ہوا مجھ کو اوڑھ کر 
کل رات اس کے جسم کی چادر بھی میں ہی تھا 

مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہم سری 
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا 

آئینہ دیکھنے پہ جو نادم ہوا قتیلؔ 
ملک ضمیر کا وہ سکندر بھی میں ہی تھا 


No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...