وہ تمام غم
جو گذرگئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ تمام دن وہ تمام غم
جو گذرگئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ لُٹے سہاگ وہ عصمتیں
جو فسانہ ہیں وہ حقیقتیں
وہ تمام گھر اُجڑ گئے
وہ عزیز سب جو بچھڑ گئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ عجیب لوگ وہ قافلے
جو نہ رُک سکے نہ بھٹک سکے
جو چمن سجا کے چلے گئے
جو وطن بنا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ تمام عہد جو فرض ہیں
جو امانتیں ہیں جو قرض ہیں
جو پڑھے تھے ضربِ قلیم میں
جو ہوئے تھے شہرِ عظیم میں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
(احمد ندیم قاسمی)
No comments:
Post a Comment