new add

Saturday 17 June 2017

وہ تمام غم

وہ تمام غم

جو گذرگئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ تمام دن وہ تمام غم
جو گذرگئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ لُٹے سہاگ وہ عصمتیں
جو فسانہ ہیں وہ حقیقتیں
وہ تمام گھر اُجڑ گئے
وہ عزیز سب جو بچھڑ گئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ عجیب لوگ وہ قافلے
جو نہ رُک سکے نہ بھٹک سکے
جو چمن سجا کے چلے گئے
جو وطن بنا کے چلے گئے
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
وہ تمام عہد جو فرض ہیں
جو امانتیں ہیں جو قرض ہیں
جو پڑھے تھے ضربِ قلیم میں
جو ہوئے تھے شہرِ عظیم میں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں
ہمیں یاد ہیں

(احمد ندیم قاسمی)

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...