new add

Sunday 11 June 2017

ودھو کی امید اور میری نا امیدی

ودھو کی امید اور میری نا امیدی


قریب دو برس پرانے وقتوں کا ذکر ہے کہ بجلی کا بل بجلی کی طرح سر پر گرا اور ہم حیران کہ یا الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے؟؟؟ تحقیق پر پتہ چلا کہ میٹر ریڈر کی "ریڈری" کا کمال ہے- موصوف میٹر ریڈر کم اور ایس ڈی او صاحب کے ریڈر زیادہ تھے-
اگر آپ بجلی چوری نہیں کرتے تو یہ واپڈا کا فائدہ ہو سکتا ہے مگر واپڈا والوں کا نقصان ہے- ظالم جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے میں لگے ہیں اور جس تھالی میں کھا تے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں- یہی وجہ ہے کہ اکثر سودمند اور منافع بخش سرکاری اداروں کے سر پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے- سرمایہ دار بھیڑیے یہی چاہتے ہیں کہ محکمہ کمزور ہو اور وہ اسے زندہ نگل سکیں-
 ماجرا یہ ہے کہ ریڈنگ اصل ریڈنگ سے دانستہ کم کی جاتی ہے اور پھر جب صارف جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اس کے سر پر بم پھوڑ دیا جاتا ہے-
دھاڑ دھاڑ کی اور انصاف کی دہائی دی تو  واپڈا کے ایک صاحبِ حال و قال اور "پہنچے ہوئے" مین----لائن کرنے کیلئے موقع پر آ پہنچے- آپ واپڈا میں اسسٹنٹ لائن مین کے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور خدا کی قسم موصوف نے واپڈا سب ڈویژن کرمداد قریشی میں گورے اور کالے، عربی اور عجمی، امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر اہلِ محلہ و علاقہ کی "خدمت" کی ہے- خدا جانے کون سی قمیص میں وہ جیب لگی ہو گی جس میں اس مردِ خدا کا حصہ بخرا نہ ہو گا-
فرمایا میٹر ریڈر کو کچھ دے دلا کر میٹر ریورس کرانا پڑے گا- میں عرض گذار ہوا کہ اے پیرِ فرتوت کالے کرتوت یہ تجویز مجھے نہ دے کہ ابا حضور ماسٹر ہیں اور جدید دور کے تقاضے نہیں سمجھتے- ایسے آدمی کے ساتھ کیا مغز ماری جس نے اتوار کے روز بھی سکول سے ناغہ نہ کیا ہو اور پھول پھلواریاں اور کیاریاں بھی ذاتی جیب اور خونِ دل سے سینچی ہوں-

اے تو کہ تیری پہنچ "اوپر" تک ہے کوئی درمیانی راستہ نکال!!!!!!

مگر درمیانی راستہ بندر بانٹ کا تھا اور یوں میٹر ابا حضور کی پرانی سوچ کی بھینٹ چڑھ گیا- گھر میں موجود چار تنخواہوں نے بل دیکھا اور یہ بھاری پتھر اٹھانے سے معذرت کر لی-
اے چار تنخواہو! تم سے تو وہ چار کریمیں اچھی جو ایک نظر چہرے پر ڈال دیں تو بندہ "سرخرو" ہو جائے-
 آخر واپڈا والے میٹر اتار کر لے گئے اور یہیں سے ہماری آج کی کہانی شروع ہوتی ہے-

میٹر آر سی او ہوا اور دوسرا میٹر آ گیا جو پتہ نہیں کس "قصور" میں کہاں سے اتارا گیا تھا- اب اس میٹر کے پچھلے سارے قصور ہمارے کھاتے میں پڑنا شروع ہو گئے- میٹر بجلی پر کم اور ہماری قسموں اور اہلِ محلہ کی گواہی پر زیادہ چلتا رہا- جس تس نے بھی میٹر دیکھا اگلے ماہ کا بل غصے میں بھیجا- اماں اور ابا ہر مہینے مجھے برا بھلا کہتے-
ایک سندھی ایس ڈی او صاحب آئے اور میٹر کے سر ہو گئے- ہر چند کہ واپڈا اہلکاروں اور اہلِ محلہ نے ہماری پاک دامنی کے حلف دئیے مگر موصوف نہ مانے اور قریب سے میٹر دیکھنے جا پہنچے- ادھر میٹر کو ہاتھ لگا اور ادھر میٹر کے عقب میں مورچہ زن بھڑوں کا لشکر حملہ آور ہوا-
خدا گواہ کہ فوجِ اشقیاء منہ چھپاتی پھری-
یہی وہ مقدس لمحات تھے جب ہمیں رزقِ حلال کی برکت اور اپنی اولیائی پر یقین ہو گیا---مگر آگے چل کر میپکو سب ڈویژن کی کمان ایک ایسے سورما کے ہاتھ میں آئی کہ جس کی خوش کلامی سے انسانیت کا اعتبار بھی جاتا رہا-
میٹر کی اندھا دھند ریڈنگ ہوتی رہی اور ہم خزانہ سرکار میں بل اور تاوان جمع کرواتے رہے- بھاری بلوں سے عاجز آ کر بھاگ دوڑ کی تو پتہ چلا کہ الٹی گنگا بہہ رہی ہے- نومبر 2016 تک ریڈنگ نیگیٹو ہو گئی اور واپڈا ہمارا مقروض ہو گیاِ - مگر محکمے کے وفا پیشہ سپوتوں نے میٹر پر ڈیفیکٹو کوڈ لگا دیا- احباب نے مشورہ دیا کہ تبدیل کروا لیں اور جان چھڑوائیں-
تف ہے اے سادہ دلی تجھ پر کہ تو میری انگلی تھام کر اس مردِ مردود نہ فاتحہ نہ درود کے آستانے پر لے گئی جس کی غارت گری کے چرچے آسمانوں پر ہو رہے تھے- بولا دو دن میں میٹر لگ جائے گا دو ہزار فیس ہے- چند دن پہلے میں نے اپنے ایک دوست پولیس افسر سے درخواست کر کے ظالم کی ضمانت قبل از گرفتاری کنفرم کروائی تھی اور مجھے امید تھی کہ میرے ساتھ راستی کا معاملہ کرے گا-
میں نے دو ہزار دئیے اور دو دن کا انتظار کرنے لگا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ-
تھانیداری کام آئی، ہمسائیگی اور نہ احسان کہ جس کا بدلہ احسان ہوتا ہے-
میں نے شوکت ملیر کے پاؤں جا پکڑے کہ ملیر اب تم ہی بچا سکتے ہو- شوکت ملیر واپڈا یونین کا عہدیدار ہے اور عام طور پر وہ بھی ڈبونے ہی کا کام کرتا ہے مگر مجھے اکثر بچا لیتا ہے-  میٹر پر ڈیفیکٹو کوڈ لگ چکا تھا اور ہم چھ ہزار تاوان بھی بھر چکے تھے-لینے کے دینے کیسے پڑتے ہیں، کوئی ہمارا بل دیکھے اور دیکھے-
شوکت نے میٹر تبدیل کروا دیا اور وعدہ کیا کہ ڈیٹیکشن بل بھی نہیں آئے گا-
میٹر تبدیل ہو گیا اور میں تکیہ کھینچ کر سکون کی نیند سونے ہی والا تھا کہ بجلی چلی گئی- ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھا کیا کہ ابھی واپس آئی کہ آئی مگر احباب یہ کرم داد قریشی ہے، محلہ کیا ہے سویا ہوا محل ہے- یہاں ملازمان و افسران سرکار کو کوئی روکنے ٹوکنے اور پوچھنے پاچھنے والا نہیں- سیاست کار تو ہر حلقہء انتخاب میں ایک جیسے بے ضمیر ہیں مگر ضمیرِ آدم تو زندہ و بیدار ہو!
واپڈا اہلکار ہو، تحصیلدار ہو کہ تھانیدار سب  مرغِ باد نما اور چڑھتے سورج کے پجاری ہیں- ابلیسی نظام نے دفتروں ،ایوانوں اور عدالتوں میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور عوام کے ساتھ اعداد و شمار کا مکروہ کھیل کھیلا جا رہا ہے- ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے تب کہیں کوئی اسحاق ڈار جیسا دیدہ ور پیدا ہوتا ہے، اوپر سے کروڑوں عوام پر آبِ حیات کی ایک بوند ٹپکاتا ہے اور درباری بادشاہ کے حضور بلندیء اقبال کے ترانے گانا اور مبارک سلامت کے ڈھول پیٹنا شروع ہو جاتے ہیں- خضر نے سکندر کو جان بوجھ کرچشمہء حیواں سے بھٹکا دیا کہ مر بھی نہیں سکو گے اور جی بھی نہیں سکو گے- یہی حال ہم الباکستانیوں کا ہے - افسوس کہ وطنِ عزیز خرکار کیمپ بن چکا ہے- حکمران سرکاری عمال کے ذریعہ غریبوں کے چولہے کی لکڑی اور دئیے کا تیل چوری کرتے، اپنی تجوریاں اور عالمی مالیاتی اداروں کے گودام بھرتے ہیں-

جب چھوٹی سوئی نے ساتواں چکر کھایا اور بجلی نہیں آئی تو  میں نے واپڈا کمپلینٹ آفس ملتان کال کر کے رحم کی اپیل کی- انہوں نے میرا ریفرنس نمبر نوٹ کر کے شکایت درج کر لی- یاد رہے کہ جملہ کمپلینٹ سیلز پر شکایت درج کی جاتی ہے اس کا ازالہ نہیں کیا جاتا- امید ہے اس مقصد کیلئے کوئی اور سیل بنایا جائے گا-
مزید لوکل کمپلینٹ سیل اور ایس ڈی او سے رابطہ کرنے کا نیک مشورہ بھی دیا اور نمبرز بھی دئیے-
میں نے کمپلینٹ آفس رابطہ کیا تو معلوم ہوا کوئی تار ٹوٹ گئی ہے جلد ہی بجلی بحال کر دی جائیگی- اندر کی بات پوچھی تو بتایا گیا کہ وہی لائن لاسز کور کئے جا رہے ہیں ایس ڈی او صاحب کے حکم سے،،،،،،بند ہے- میں نے ایس ڈی او کا آفیشل نمبر ملایا اور بسم اللہ کر کے شروع ہو گیا کہ جناب سات گھنٹے ہو گئے ہیں بجلی گئے ہوئے، بجا کہ محکمے کی مجبوریاں ہوں گی مگر،،،،،،،،،،،،،،،آگے سے موصوف بولے کہ اگر مگر کچھ نہیں آپ نے رانگ نمبر ملایا ہوا ہے- مجھے سخت شرمندگی ہوئی-
دوبارہ دفتروں سے نمبر کنفرم کیا تو پتہ چلا کہ نمبر وہی تھا- دوبارہ کال ملائی تو موصوف نے ڈراپ کر دی- تب میں نے میسیج کیا کہ آپ اپنے آفیشل نمبر اور اپنی سرکاری شناخت سے منحرف ہو گئے ہیں ضرور آپ گندے آدمی ہیں-
موصوف شاید واقعی ویسے ہی آدمی تھے- بجلی تو نہیں آئی البتہ ایک کال ضرور آ گئی اور مخاطب نے ایس ڈی او واپڈا منیر گجر کی حیثیت سے اپنا تعارف کروا کے گالیاں دینا شروع کر دیں- میں حیران ہوا کہ رانگ نمبر درحقیقت کون سا تھا؟ میں نے معذرت کی اور کال کاٹ دی- میں تو پولیس والا ہوں گالیوں کا لین دین کرتا رہتا ہوں مگر یہ پڑھا لکھا انجینئر کیسی زبان بول رہا تھا؟ دوستوں سے معلوم ہوا کہ آپ ایل ایس ہیں اور مقامی ایم پی اے کی کاسہ لیسی کی بدولت ایس ڈی او کے عہدہ پر فائز ہیں- تب مجھ پر صاحب کی چوہدراہٹ، زبان دانی اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ کھلی-
کم تر اہلیت کے آدمی سے کیا توقع کہ وہ منصب کا لحاظ رکھے گا-
بڑے میاں صاحب، پھر چھوٹے میاں صاحب اور پھر چھوٹے میاں صاحب!  بجلی تو آپ دے نہیں سکتے، حرفِ تسلی بھی عوام کیلئے آپ کے پاس نہیں ہے؟
دل چاہا کہ شکایت لیکر وزیرِاعظم کے دفتر چلا جاؤں پھر خیال آیا کہ اگر آپ نے بھی کہا کہ بھئی میں انڈیا کا وزیرِ اعظم ہوں تو پھر کہاں جاؤں گا؟؟؟؟ وہاں بھی تو انحراف کی رسم رائج ہے- نہ یہ کار میری ہے اور نہ بنگلہ،،،نہ کارخانے اور ملیں میری ہیں اور نہ اکاؤنٹس اللہ اللہ خیر صلا- سب کچھ بچوں کا ہے- سب کچھ بچوں ہی کا تو ہوتا ہے-

خیر اس ماہ تبدیل شدہ میٹر پر 20000 روپے ڈیٹیکشن بل آیا ہوا ہے،،،،،افسرِ شاہانہ سے بد تمیزی کرنے کی کچھ سزا تو بہرحال بنتی ہے-
اللہ گواہ ہے کبھی ایک یونٹ بھی واپڈا کا چوری نہیں کیا اور گذشتہ چھ ماہ میں قریب تیس ہزار شبہ چوری میں ریکوری دے چکے ہیں- کوئی ادارہ، کوئی افسر کوئی مائی کا لعل، کوئی دھرتی کا سپوت ایسا بھی ہے جو اہلِ پانامہ پر شبہ چوری میں ریکوری ڈال دے؟؟؟؟؟
کہ بس ہم عوام ہی چور ہیں؟

ودھو سندیلہ واپڈا کی مدعیت میں درج ایک مقدمہ میں میرا ملزم رہا ہے، بھولا آدمی ہے دو میٹھے بول کیا بولے کہ اب اسے میپکو سب ڈویژن گجرات سے کوئی بھی شکایت ہو تو وہ مجھ سے امید باندھ لیتا ہے-

میں کدھر جاؤں؟؟؟؟؟

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...