new add

Sunday 11 June 2017

اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں



اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں

میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں

وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں

ہے اُسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

تم بنو رنگ، تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
 

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...