new add

Saturday 17 June 2017

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا



ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

کس سے پوچھوں ترے آقا کا پتہ اے رہوار
یہ علم وہ ہے نہ اب تک کسی شانے سے اٹھا

حلقۂ خواب کو ہی گرد گلو کس ڈالا
دست قاتل کا بھی احساں نہ دوانے سے اٹھا

پھر کوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا
کیسا مہتاب مرے آئنہ خانے سے اٹھا

کیا لکھا تھا سر محضر جسے پہچانتے ہی
پاس بیٹھا ہوا ہر دوست بہانے سے اٹھا

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...