اب تیری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کھلتے ہیں ازیت نہیں ہوتی مجھ کواب کوئی آئے چلا جائےمیں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلاہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں جینے کی حوس میں محسن
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
محسن نقوی صاحب

No comments:
Post a Comment