new add

Friday, 9 June 2017

اب تیری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو


اب تیری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

زخم کھلتے ہیں ازیت نہیں ہوتی مجھ کو

اب کوئی آئے چلا جائےمیں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو

ایسا بدلاہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو

ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو

اتنا مصروف ہوں جینے کی حوس میں محسن
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
محسن نقوی صاحب

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...