new add

Saturday, 10 June 2017

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا



گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا 

یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا 

گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے 
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا 

منزل کو نہ پہچانے رہ عشق کا راہی 
ناداں ہی سہی ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا 

تھک کر یوں ہی پل بھر کے لیے آنکھ لگی تھی 
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا 

واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت 
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا 

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...