new add

Saturday, 10 June 2017

وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا



وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا 

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا 

جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے 
وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا 

نہ وہ رنگ فصل بہار کا نہ روش وہ ابر بہار کی 
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا 

جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی 
سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و صفا گیا 

ابھی بادبان کو تہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخ ہوا 
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے چلا گیا 

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...