new add

Saturday, 10 June 2017

یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا




یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا 

پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا

غم جہاں ہو رخ یار ہو کہ دست عدو 
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

تھے خاک راہ بھی ہم لوگ قہر طوفاں بھی 
سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ کیا

خوشا کہ آج ہر اک مدعی کے لب پر ہے 
وہ راز جس نے ہمیں راندۂ زمانہ کیا

وہ حیلہ گر جو وفا جو بھی ہے جفاخو بھی 
کیا بھی فیضؔ تو کس بت سے دوستانہ کیا 

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...