new add

Friday, 9 June 2017

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا

چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا 
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا 

بات بن آئی ہے پھر سے کہ مرے بارے میں 
اس نے پوچھیں مرے غم خوار سے باتیں کیا کیا 

لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں 
چپ کے پیرایۂ اظہار سے باتیں کیا کیا 

کسی سودائی کا قصہ کسی ہرجائی کی بات 
لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا 

ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں 
ہاتھ میں ہاتھ لیے پیار سے باتیں کیا کیا 

کس کو بکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اس حیلے سے 
ہو گئیں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا 

ہم ہیں خاموش کہ مجبور محبت تھے فرازؔ 
ورنہ منسوب ہیں سرکار سے باتیں کیا کیا 

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...