new add

Saturday, 10 June 2017

میں چپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا

میں چپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا 

وہ سنگ لفظ پھینک کے کتنا اداس تھا 

اکثر مری قبا پہ ہنسی آ گئی جسے 
کل مل گیا تو وہ بھی دریدہ لباس تھا 

میں ڈھونڈھتا تھا دور خلاؤں میں ایک جسم 
چہروں کا اک ہجوم مرے آس پاس تھا 

تم خوش تھے پتھروں کو خدا جان کے مگر 
مجھ کو یقین ہے وہ تمہارا قیاس تھا 

بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن 
محسنؔ وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا 

 

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...