new add

Sunday 11 June 2017

اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا



اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھامجھ میں تیرا جمال تھا کیا تھا


تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
دل میں ڈر تھا ملال تھا کیا تھا

برق نے مجھ کو کر دیا روشن
تیرا عکس جلال تھا کیا تھا

ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم
تیرا وقت زوال تھا کیا تھا

جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا
ڈوبنے کا خیال تھا کیا تھا

جس پہ دل سارے عہد بھول گیا
بھولنے کا سوال تھا کیا تھا

تتلیاں تھے ہم اور قضا کے پاس
سرخ پھولوں کا جال تھا کیا تھا

No comments:

Post a Comment

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا

کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا  ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی  کوئی خواب اس کے عذاب می...